واقعہ معراج ۔ حیات اطہر کا اہم ترین معجزہ
---------------------------------------------------
واقعہ معراج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اطہر کا اہم ترین واقعہ ، ایک عظیم الشان معجزہ ہے، جو انسانی عقل و قیاس کی حدود سے بالا تر ہے۔
اس رات کو اللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج شریف کی دولت عطا فرمائی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت اور دوزخ کو ملا حظہ فرمایا اور چشمان مبارک سے اللہ عزوجل کا دیدار کیا۔ لہذا اس
رات کو خوب عبادت میں گزارنا چاہنے۔
حضور علیہ السلام کا معراج فرمانا قرآن عظیم اور احادیث مبارک سے ثابت ہے۔علماء فرماتے ہیں مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک کے سفر کو “اسراء" کہتے ہیں اور یہ قرآن عظیم سے ثابت ہے اسکا منکر کا فر ہے۔ اور مسجد اقصٰی سے آسمانوں تک تشریف لے جانا اور عرش سے آگے لامکان تک تشریف لے جانا اورجنت اور دوزخ کا ملا حظہ فرمانا احادیث مبارک سے ثابت ہے اسے معراج کہتے ہیں اس کا منکر فاسق و فاجر ہے اور سخت گناہگار ہے۔
(معراج لنبی مصنف غزالی دوراں علامہ سیداحمد سعید کا ظمی رحمتہ اللہ علیہ)
قرآن پاک میں سورہ بنی اسرائیل میں واقعہ معراج کا ذکر یوں کیا گیا ہے " پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک لے گئی جس کو ہم نے برکت دے رکھی ہے تا کہ اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائیں۔ یقینا اللہ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔"
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں " میرے پاس براق لایا گیا جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جو ایک قدم اتنی دور رکھتا تھا جتنی دور اس کی نگاہ جاتی تھی، میں اس پر سوار ہوا تو وہ مجھے لے کر چلا۔ میں بیت المقدس پہنچا، وہا ں دو رکعت نماز ادا کی، اسکے بعد جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ میں دو برتن تھے۔ ایک میں شراب جب کہ دوسرے میں دودھ تھا، میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرت کو پا لیا "۔
براق کا سفر اس تیزی کے ساتھ ہوا کہ جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چلا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری بڑی شان کے ساتھ پچاس ہزار فرشتوں کی معیت میں مسجد الحرام سے نکلی۔ آسمانوں کے دریچے کھول دئیے گئے تا کہ آسمان کے فرشتے بھی اسریٰ کے دولہا کی برات کے دیدار سے مشرف ہو سکیں۔ایک وادی آئی جس میں کھجور کے بے شمار درخت تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ تھی۔ پھر ایک وادی ایمن سے گزر ہوا۔
جبرائیل امین نے عرض کیا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا۔ پھر بیت المقدس آگیا۔ وہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل صفیں باندھے کھڑے تھے۔ امامت کا مصلہ خالی تھا۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصلے پر پہنچے تو جبرائیل امین نے اذان دی۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت فرمائی۔ مسجد اقصیٰ سے فراغت کے بعد بلندی کا سفر شروع ہوا۔ تمام انبیا ئے کرام معراج کی شب بیت المقدس میں جمع ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تمام نبیوں کے امام ہوئے اور میدان حشر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی شفاعت فرمائیں گے، یہی وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور جس کا قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے وعدہ فرمایا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر اسی طرح گرم تھا اوردروازے کی زنجیر بھی ہل رہی تھی۔ وضو کا پانی بھی جاری تھا۔
شب معراج کے وظائف کے متعلق حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس نے اس دن سو مرتبہ سجان اللہ وبحمدہ پڑھا تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے، خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں(صیح بخاری)۔
اس مقدس سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر رکھا گیا، اس لئے ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ نماز پابندی کے ساتھ ادا کریں اور اس کے ساتھ اسلام کے تمام ارکان کی ادائیگی بھی کریں۔